رخشندہ نوید ۔۔۔ قدم قدم پر ایک نئی ہلچل دیتا ہے

قدم قدم پر ایک نئی ہلچل دیتا ہے
پہلے مشکل پھر مشکل کا حل دیتا ہے

میں بھی وہی لفظوں کی بساط بچھا دیتی ہوں
وہ بھی کوئی چال پرانی چل دیتا ہے

تلخی اپنی نوکِ زباں پر جم سی گئی ہے
ہم نے سنا تھا صبر تو میٹھا پھل دیتا ہے

پہلے دکھائے دور سے راہیں ہری بھری وہ
اور پھر چلتے جانے کو جنگل دیتا ہے

سرحد کے اس پار عجب سی خاموشی ہے
دشمن شاید رسّی کو پھر بل دیتا ہے

پہلو سے اُٹھتے اُٹھتے ، جاتے جاتے وہ
کیسا رنگ مرے چہرے پہ مَل دیتا ہے

Related posts

Leave a Comment